سمجھو تو ہر ایک سویرا اپنا ہے
چاروں جانب گھور اندھیرا اپنا ہے
ہم شعروں سے نقب لگا کر اترے ہیں
ہر اک دل میں آج بسیرا اپنا ہے
اک دن آخر سانپ وہ تجھ کو ڈس لے گا
جس کو تو کہتا ہے تیرا اپنا ہے
سر پر دھوپ ہمارے آکر بیٹھی ہے
سایہ پھر بھی خوب گھنیرا اپنا ہے
جو لوگوں کو مجھ سے باغی کرتا ہے
حیرت ہے وہ شخص تو میرا اپنا ہے
خوش ہوں زاہد آج میں جب سے دیکھا ہے
جس پر ہیں سرخاب بنیرا اپنا ہے
حکیم محبوب زاہد