کہسار کاٹ کر نیا رستہ بناؤں گا
جھرنے سمیٹ کر انہیں دریا بناؤں گا
مٹی کو رکھ کے چاک پہ میں سوچتا پھروں
دنیا کو کیوں یہ فکر ہے میں کیا بناؤں گا
تم ڈھونڈتے پھرو گے مری آنکھ میں نمی
میں اپنے ضبط سے اسے صحرا بناؤں گا
قرطاس پر بناؤں گا تصویر خوش جمال
بچہ لبِ فرات میں پیاسا بناؤں گا
سورج کواپنے سامنے لاؤں گا اس لئے
بچوں کے سر پہ دھوپ میں سایا بناؤں گا
پیغام لا رہی ہے جو خوشیوں بھری ہوا
ماحول اس کے واسطے تازہ بناؤں گا
تاریک راستوں میں وہ جگنو نہیں رہے
روشن کروں گا خود کو اجالا بناؤں گا
زاہد وہ جن سے کھو گیا ہےگھر کا راستہ
ان کے لئے میں شہر کا نقشہ بناؤں گا
حکیم محبوب زاہد