جو ہوگا اس کا اندازہ نہیں ہے
جو آئی ہے ہوا تازہ نہیں ہے
جہاں پر قید ہونے جا رہا ہوں
سنا ہے اس کا دروازہ نہیں ہے
حسیں ہاتھوں سے مرہم کا لگانا
مرے زخموں کا خمیازہ نہیں ہے
حسیں چہرہ اٹا ہے گردِ رہ سے
سو اس پر اب کوئی غازہ نہیں ہے
کسی نے آپ کی توصیف کی ہے
یقیں رکھیں یہ آوازہ نہیں ہے
خدا کا شکر جو بکھرا ہے زاہد
وہ میرے گھر کا شیرازہ نہیں ہے
حکیم محبوب زاہد