وہ زباں کھولے تو پھر سارا جہاں بولتا ہے
ورنہ اس شہر میں سچ کوئی کہاں بولتا ہے
حاکمِ وقت ترے شہر میں ایسا کیا ہے
جس کو بھی دیکھو وہی تیری زباں بولتا ہے
اس لئے مجھ کو خبر وقت پہ مل جاتی ہے
جب یقیں ماند پڑے میرا گماں بولتا ہے
جس کی لکنت پہ کبھی لوگ ہنسا کرتے تھے
محوِ حیرت ہوں کہ اب کیسے رواں بولتا ہے
بات بے بات ہوئی دل کی نوا یوں ظاہر
جب عیاں چپ ہو تو پھراس کا نہاں بولتا ہے
شام کے وقت جہاں ہوتا ہے بے نام سکوت
رات کے پچھلے پہر سارا مکاں بولتا ہے
خامشی اتنی ضروری بھی نہیں ہے زاہد
آنکھ بہتی ہے جہاں حرفِ فغاں بولتا ہے
حکیم محبوب زاہد