Profile
ضلع منڈی بہاءالدین: تاریخ، تہذیب اور ترقی کی داستان
تعارف
ضلع منڈی بہاءالدین پنجاب، پاکستان کے وسطی حصے میں واقع ایک قدیم اور تاریخی خطہ ہے۔ی
ہ دو دریاؤں — جہلم (شمال میں 12 کلومیٹر) اور چناب (جنوب میں 39 کلومیٹر) — کے درمیان واقع ہے۔
یہ ضلع تین تحصیلوں پر مشتمل ہے:
تحصیل منڈی بہاءالدین
تحصیل پھالیہ
تحصیل ملکوال
کل رقبہ تقریباً 2673 مربع کلومیٹر ہے اور سطحِ سمندر سے 220 میٹر بلند ہے۔
آبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا 41 واں بڑا شہر ہے۔
“منڈی بہاءالدین” دو الفاظ کا مجموعہ ہے —
منڈی (بازار) اس لیے کہ یہاں ایک مشہور اناج منڈی تھی، بہاءالدین قریبی قدیم بستی پنڈی بہاءالدین سے لیا گیا، جو اب شہر کا حصہ بن چکی ہے۔
ابتدائی تاریخی پس منظر
جنگِ ہائیڈیسپس (Battle of Hydaspes – 326 قبل مسیح)
تاریخی روایات کے مطابق، منڈی بہاءالدین کی قدیم تاریخ 326 قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سکندرِ اعظم (Alexander the Great) نے مقامی راجہ راجہ پورس (Raja Porus) سے دریائے جہلم (جسے یونانی “Hydaspes” کہتے تھے) کے کنارے گاؤں مونگ (Mong) کے مقام پر جنگ لڑی۔
یہ جنگ آج کے منڈی بہاءالدین شہر سے تقریباً 8 کلومیٹر شمال مغرب میں لڑی گئی۔اگرچہ سکندر نے جنگ جیت لی، مگر راجہ پورس کی بہادری اور سخت مزاحمت نے اس جنگ کو سکندر کی آخری بڑی لڑائی بنا دیا۔
اسی جنگ کے بعد سکندر نے دو شہر آباد کیے:
نیکیا (Nicaea) — موجودہ مونگ کے مقام پر
بیوسیفیلا (Bucephala) — موجودہ پھالیہ کے مقام پر
“بیوسیفیلس” دراصل سکندر کے محبوب گھوڑے کا نام تھا، جو اسی جنگ کے دوران یا فوراً بعد وفات پا گیا۔
یہ جنگ برصغیر کی تاریخ میں اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے نتیجے میں یونانی اثرات (ثقافتی، سیاسی اور فنی) اس خطے میں داخل ہوئے، جو صدیوں تک جاری رہے — جیسے یونانی بدھ فن (Greco-Buddhist Art) اور انڈو-یونانی سلطنتیں۔
⚔️ جنگِ چلیانوالہ (Battle of Chillianwala – 1849ء)
منڈی بہاءالدین کے علاقے چلیانوالہ میں 1849ء میں سکھوں اور انگریزوں کے درمیان تاریخی جنگ لڑی گئی۔
یہ جنگ تاریخ میں دوسری اینگلو-سکھ جنگ (Second Anglo-Sikh War) کے نام سے معروف ہے۔
اس جنگ کے نتیجے میں پورا پنجاب برطانوی راج کے زیرِ قبضہ آ گیا۔
چلیانوالہ میں آج بھی انگریز فوجیوں کی قبریں اور یادگار قائم ہیں، جنہیں عوام “گورا قبرستان” کے نام سے جانتے ہیں۔
🌿 قدیم بستی — پنڈی بہاءالدین
اس علاقے کی پہلی معروف انسانی بستی 1506ء میں قائم ہوئی، جب حضرت بہاءالدین نامی ایک صوفی درویش پنڈی شاہ جہانیان سے ہجرت کر کے یہاں آئے اور ایک چھوٹا گاؤں آباد کیا۔
یہ بستی بعد میں ان کے نام پر پنڈی بہاءالدین کہلائی۔
وقت کے ساتھ یہ بستی جدید شہر کا حصہ بن گئی۔
🇬🇧 برطانوی دور میں ترقی و تبدیلی
ریلوے نظام اور نہریں
برطانوی راج کے دوران اس خطے میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام ہوئے۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد انگریز حکومت نے یہاں نئی آبادیاتی بستیاں (Canal Colonies) قائم کیں تاکہ زراعت کو فروغ دیا جا سکے اور دفاعی طور پر شمالی راستوں کو مضبوط بنایا جا سکے۔
اس علاقے کو گوندل بار (Gondal Bar) کہا جاتا تھا، جو اس وقت بنجر زمینوں پر مشتمل تھا۔
زرخیزی بحال کرنے کے لیے انگریزوں نے ایک عظیم آبپاشی منصوبہ شروع کیا —
لوئر جہلم کینال (Lower Jhelum Canal) — جو 1902ء میں مکمل ہوا۔
1916ء میں برطانوی حکومت نے یہاں پنڈی بہاءالدین ریلوے اسٹیشن تعمیر کیا، جو نارتھ ویسٹرن ریلوے (NWR) کا حصہ تھا۔
یہ نظام شمالی سرحدوں کے دفاع کے لیے نہایت اہم سمجھا جاتا تھا۔
چک بندی اور زمینوں کی تقسیم
برطانوی پالیسی کے تحت زمینوں کی منظم تقسیم کے لیے چک بندی (Chak Bandi) کا نظام متعارف کرایا گیا،
جسے سر میلکم ہیلی (Sir Malcolm Heley) نے 51 چکوں کی بنیاد پر ترتیب دیا۔
ان زمینوں کو ان لوگوں میں تقسیم کیا گیا جنہوں نے برطانوی حکومت کی خدمت کی تھی۔
اسی دور میں چک نمبر 51 کے مقام پر ایک منڈی قائم کی گئی، جو جلد ہی علاقے کی سب سے بڑی اناج مارکیٹ بن گئی۔
یہیں سے شہر کا نام منڈی بہاءالدین وجود میں آیا۔
شہر کی تشکیل
1920ء میں برطانوی حکومت نے اس شہر کو سرکاری طور پر منڈی بہاءالدین کا درجہ دیا۔
1923ء میں شہر کی ازسرِنو تعمیر کے دوران سڑکوں کو سیدھا اور کشادہ بنایا گیا۔
1937ء میں شہر کو ٹاؤن کمیٹی،
اور 1941ء میں میونسپل کمیٹی کا درجہ حاصل ہوا۔
1946ء تک شہر کے گرد نو (9) دروازوں اور حفاظتی فصیل کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔
🇵🇰 تقسیمِ ہند کے بعد کا دور
1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد جب سکھ اور ہندو آبادی بھارت منتقل ہوئی،
تو مہاجر مسلمان خاندانوں نے یہاں آ کر سکونت اختیار کی۔
1960ء میں منڈی بہاءالدین کو سب ڈویژن کا درجہ ملا۔
1963ء میں رسول بیراج اور رسول-قادرباد لنک کینال کا منصوبہ شروع کیا گیا،
جسے واپڈا کے زیرِ انتظام انجینئر ریاض الرحمٰن شریف کی سربراہی میں 1968ء میں مکمل کیا گیا۔
یہ منصوبہ اس خطے کی زرعی اور معاشی ترقی کی بنیاد بنا۔
آخرکار 1 جولائی 1993ء کو وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں منظور احمد خان وٹو نے اسے باقاعدہ ضلع کا درجہ دے دیا۔
جغرافیہ و محلِ وقوع
شمال میں: جہلم
جنوب میں: گوجرانوالہ و حافظ آباد
مشرق میں: گجرات
مغرب میں: سرگودھا
یہ ضلع زرخیز زمینوں، نہری نظام، اور معتدل آب و ہوا کے باعث زراعت کے لیے نہایت موزوں ہے۔
معیشت و زراعت
ضلع کی معیشت بنیادی طور پر زراعت پر مبنی ہے۔
اہم فصلیں:
گندم
چاول
گنا
مکئی
چارہ و سبزیاں
یہاں چاول اور گنا کی پیداوار پورے پنجاب میں ممتاز مقام رکھتی ہے۔
منڈی بہاءالدین کی سبزی منڈی اور چاول ملز ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
🎓 تعلیم و ثقافت
منڈی بہاءالدین میں تعلیم کی شرح پنجاب کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں نمایاں ہے۔
یہاں گورنمنٹ ڈگری کالج برائے طلبا و طالبات، جدید نجی اسکولز، اور یونیورسٹی کیمپسز قائم ہیں۔
ثقافت سادہ مگر بھرپور ہے، اور لوگ مہمان نواز، دیانتدار اور محنتی ہیں۔
اہم قبائل: گوندل، وڑائچ، تارڑ، رنجھا، ساہی، مانگٹ، اعوان
🌟 نمایاں شخصیات
جنرل (ر) پرویز مہدی قریشی — سابق سربراہ پاک فضائیہ
نذر محمد گوندل — سابق وفاقی وزیر
نذیر افضل چن — سابق ترجمان وزیراعظم
مستنصر حسین تارڑ — معروف ادیب و سیاح
حسن علی — قومی کرکٹر
شوکت علی — نامور لوک گلوکار
آج کا منڈی بہاءالدین
منڈی بہاءالدین آج ایک ترقی یافتہ، صنعتی، تجارتی اور زرعی مرکز بن چکا ہے۔
یہاں کی فرنیچر انڈسٹری، چاول ملز، سبزی منڈی، اور پٹرولیم کاروبار پورے پنجاب میں معروف ہیں۔
البتہ شہری مسائل جیسے ٹریفک، تجاوزات اور صفائی اب بھی توجہ کے طالب ہیں۔
🌄 نتیجہ
منڈی بہاءالدین ایک ایسا خطہ ہے جو سکندرِ اعظم اور راجہ پورس کی جنگوں،
برطانوی دور کی اصلاحات،
اور پاکستان کی جدید ترقی — تینوں ادوار کی کہانی اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
یہ ضلع پنجاب کی روح، روایت، زرخیزی، اور محنت کی علامت ہے —
ایک ایسا مقام جہاں تاریخ، ثقافت، اور ترقی ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہیں۔
Map
Sorry, no records were found. Please adjust your search criteria and try again.
Sorry, unable to load the Maps API.





